نہ رو نہ سکینہ, نہ رو نہ سکینہ
عباس نہ اب لوٹ کے آئے گا سکینہ
اب کون تیرے ناز اُٹھائے گا سکینہ
اب کون میرے گھر کو بچائے گا سکینہ
عباس نہ اب لوٹ کے آئے گا سکینہ
کیا ہوگا ذرا دیرمیں معلوم ہے ہم کو
تر خُوں میں علم نہر سے آے
گا سکینہ
لگتا ہے کہ اب شیر نہ آئےگا سکینہ
عباس نہ اب لوٹ کے آئے گا سکینہ
تلواروں میں نیزوں میں گھِراہے میرا بھائیوہ مشک وعلم کیسے بچائے گا سکینہ
عباس نہ اب لوٹ کے آئے گا سکینہ
عباس نہ ہوں گے تیرا بابا بھی نہ ہوگااب کون تیری پیاس بجھائے گا سکینہ
عباس نہ اب لوٹ کے آئے گا سکینہ
کس کے لئے بی بی درِخیمہ پہ کھڑی ہو؟اب کوئی ترائی سے نہ آئے گا سکینہ
عباس نہ اب لوٹ کے آئے گا سکینہ
مشکیزہ
، علم تشنہ لبی، دست بُریدہ
کیا کیا تیرے اس دل میں سمائے گا سکینہ
کیا کیا تیرے اس دل میں سمائے گا سکینہ
عباس نہ اب لوٹ کے آئے گا سکینہ
عباس کا وعدہ ہے کہ پانی نہ پیئے گا
پہلے تمہیں کوثر پہ پلائے گا سکینہ
یہ غم تُجھے تاحشر رُلائے گا سکینہ
پہلے تمہیں کوثر پہ پلائے گا سکینہ
عباس نہ اب لوٹ کے آئے گا سکینہ
اے سرور و ریحان یہ کہتے رہے مولایہ غم تُجھے تاحشر رُلائے گا سکینہ
عباس نہ اب لوٹ کے آئے گا سکینہ
No comments:
Post a Comment